آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس – کشمیر کے مستقبل کی ضمانت
آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس – کشمیر کے مستقبل کی ضمانت
✍️ تحریر: جاوید عباسی – نوٹنگھم
ریاست جموں و کشمیر کی تاریخ میں اگر کوئی سیاسی جماعت حقیقی معنوں میں کشمیری عوام کی نمائندہ رہی ہے تو وہ صرف اور صرف آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس ہے یہ وہ جماعت ہے جس نے مہاراجہ کے جابرانہ راج میں کشمیری مسلمانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کی، اور جس نے ریاست کو پاکستان کے ساتھ الحاق کی راہ پر ڈالا۔ وقت نے بارہا ثابت کیا ہے کہ یہی جماعت کشمیری عوام کی نظریاتی، مذہبی اور سیاسی امنگوں کی ترجمان ہے۔
آج جبکہ ریاست ایک نئے قسم کی سیاسی افراتفری، قیادت کے بحران اور بیرونی اثرانداز قوتوں کے دباؤ میں گھری ہوئی ہے، ہمیں ایک بار پھر اسی نظریاتی پختگی اور سیاسی بصیرت کی ضرورت ہے جو مسلم کانفرنس کی شناخت رہی ہے۔
اس جماعت نے جب 19 جولائی 1947 کو سری نگر میں قراردادِ الحاقِ پاکستان منظور کی تھی، تو وہ محض ایک کاغذی کارروائی نہیں تھی، بلکہ ایک نظریاتی عہد تھا۔ یہ عہد تھا کہ کشمیر کی تہذیب، اس کی روح، اور اس کے عوام کی شناخت پاکستان کے ساتھ جڑی ہوئی ہے۔ بعدازاں 24 اکتوبر 1947 کو آزاد حکومت ریاست جموں و کشمیر کا قیام بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
آج بدقسمتی سے وہی ریاست، جو ایک دن الحاقِ پاکستان کا خواب دیکھتی تھی، سیاسی انتشار، گروہ بندی، اور بیرونی مداخلتوں کا شکار ہے۔ یہاں عوام کے حقیقی مسائل گم ہو چکے ہیں، اور نعرے بازی نے نظریاتی سیاست کی جگہ لے لی ہے۔ نوجوانوں کو بے سمتی کا شکار کر دیا گیا ہے، اور سوشل میڈیا کی شوریدہ فضا میں حقائق دب چکے ہیں۔
ایسے میں اگر کوئی جماعت اس بکھرے ہوئے منظرنامے کو متحد کر سکتی ہے تو وہ صرف مسلم کانفرنس ہے۔ یہ جماعت نہ کسی فرد کی جاگیر ہے، نہ کسی مخصوص خاندان کی۔ یہ ایک ریاستی نظریہ ہے، ایک تحریک ہے، جو کشمیری عوام کی اجتماعی شناخت کا نام ہے۔
پاکستان کے موجودہ اربابِ اختیار کو اس حقیقت کا ادراک ہونا چاہیے کہ آزاد کشمیر میں صرف وہی جماعت کشمیری عوام کو ایک پلیٹ فارم پر لا سکتی ہے جو ریاستی بنیاد پر ابھری ہو، جو کشمیری تشخص کی محافظ ہو، اور جو تاریخ کے کٹھن دور سے سرخرو ہو کر نکلی ہو۔ وہ جماعت مسلم کانفرنس ہے۔
یہ بات کسی جذباتی وابستگی کا نتیجہ نہیں بلکہ تاریخی تجربات کی روشنی میں کہی جا رہی ہے۔ جب جب مسلم کانفرنس کو موقع ملا، اس نے ریاست میں استحکام، پاکستان سے محبت، اور آزادی کے بیانیے کو فروغ دیا۔ اور جب بھی اس جماعت کو کمزور کیا گیا، ریاست میں انتشار، نظریاتی خلا اور سیاسی کھچاؤ بڑھا۔
آزاد کشمیر کے نوجوانوں کو بھی اب سوچنا ہوگا۔ وہ اگر جذباتی نعرے بازی، مفاداتی سیاست اور وقتی مقبولیت کے پیچھے بھاگتے رہے تو نہ صرف اپنے مستقبل کو نقصان پہنچائیں گے بلکہ ایک ریاستی نظریے کو بھی کھو بیٹھیں گے۔ انہیں چاہیے کہ وہ مسلم کانفرنس کے بینر تلے آئیں، اس کی صفوں کو مضبوط کریں، اور اسے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ بنائیں۔ یہی وہ جماعت ہے جو ان کے آبا و اجداد کا خواب تھی، اور یہی ان کا آئندہ مستقبل ہو سکتا ہے اگر وہ اس کی قدر کریں۔
مسلم کانفرنس کو بھی اپنی صفوں میں اتحاد، دیانت دار قیادت اور وژن پیدا کرنا ہوگا۔ یہ وقت قیادت کی آزمائش کا ہے۔ اگر یہ جماعت دوبارہ اپنے تاریخی مقام پر آنا چاہتی ہے تو اسے ریاست کے ہر طبقے کو ساتھ لے کر چلنا ہوگا خصوصاً نوجوانوں کو، جن پر کل کا کشمیر کھڑا ہے۔
ریاستی جماعتوں کو وقتی سیاست نہیں، دائمی نظریہ چاہیے ہوتا ہے۔ مسلم کانفرنس کے پاس یہ نظریہ موجود ہے بس اسے پھر سے فعال، مربوط اور عوامی بنانا ہوگا۔
آج جب کشمیر کے عوام، خاص طور پر نوجوان، ایک ایسی قیادت کے متلاشی ہیں جو انہیں منتشر قوتوں سے بچا سکے، انہیں اپنی تاریخ سے جوڑ سکے، اور پاکستان سے الحاق کے خواب کو زندہ رکھ سکے تو اس خلا کو صرف مسلم کانفرنس پرُ کر سکتی ہے۔