برسی قائد اعظم محمد علی جناحؒ
برسی قائد اعظم محمد علی جناحؒ
قارئین!بانی پاکستان محمد علی جناحؒ کا یوم وفات حاضری کی خاطر چند سطور موجودہ نسل کی تعلیم کے لئے لکھنے کی جسارت کر رہا ہوں۔ بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناحؒ کراچی میں 1876ء میں پونجا جناح کے ہاں پیدا ہوئے۔ پونجا جناح کراچی میں چمڑے کا کاروبار کرتے تھ۔ آپ کی والدہ جینا بائی تھی، گھریلو خاتون تھیں۔
ابتدائی تعلیم: قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے ابتدائی تعلیم سندھ مدرسہ سے حاصل کی اور دنیاوی تعلیم سندھ مسلم سکول اور بعد سندھ مسلم کالج کراچی سے حاصل کی۔اعلیٰ تعلیم کے لئے برطانیہ جانے سے پہلے آپ کی شادی رتن بائی سے ہوئی۔
اعلیٰ تعلیم: قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے لندن میں بہت سے اداروں کا وِزٹ کیا لیکن ایک ادارہ کے باہر دنیا کی معتبر شخصیات کے حوالے سے ایک بورڈ آویزاں تھا جس پر سرِ فہرست نام نبی آخر الزماں حضرت محمد ﷺ کا اسم مبارک درج تھا۔آپ اس سے متاثر ہو کر اُس ادارہ جس کا نام لنکن اِن تھا داخلہ لیا وار لاء کا امتحان پاس کرنے کے بعد بیرسٹر ایٹ لاء کا امتحان پاس کیا۔ قانون کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد واپس کراچی آئے۔1897ء میں بمبئی میں لاء کی پریکٹس شروع کی اور بہت جلد ہی ممتاز وکلاء میں شمار ہونے لگے۔1900ء میں آپ بمبئی میں پریذیڈنسی مجسٹریٹ مقرر ہوئے اور 1906ء میں استعفیٰ دے کر عملی سیاست میں شامل ہوئے۔
1906ء میں سیاست میں قدم رکھا۔ پہلے آپ آل انڈین کانگریس میں شامل ہو گئے لیکن بہت جلد ہی اُن کو اندازہ ہو گیا کہ یہ جماعت صرف ہندوؤں کے مفادات کا تحفظ کرتی ہے، مسلمانوں کے خلاف اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ اس کے باوجود ہندو مسلم اتحاد کے لئے کام کیا۔1916ء میں میثاقِ لکھنؤ مرتب کرنے میں اہم کردار ادا کیا اور آل انڈیا مسلم لیگ اور کانگریس کے مابین ہونے والے اہم کردار ادا کرنے کے بعد اس نتیجے پر پہنچے کہ کانگریس کبھی بھی مسلمانوں کے مفادات کے حق میں نہیں ہو سکتی۔1906ء میں آل انڈیا مسلم لیگ میں شامل ہوگئے اور فعال ممبر کی حیثیت سے کام کیا۔1928ء میں قائد اعظم نے مشہور چودہ نکات پیش کئے۔
1940ء میں لاہور منٹوپارک میں علامہ اقبال کے 1930ء کے خطہ الہ آباد کی روشنی میں ایک لاکھ سے زائد اکابرین برصغیر کا اجتماع ہوا جس میں شیر بنگلا وزیر اعلیٰ بنگلا مولوی اے کے فضل حق نے قرارداد لاہور پیش کی جس کو متفقہ طور پر منظور کیا۔اس اجلاس کی صدارت قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے کی۔
1947ء 14اگست کو پاکستان قائد اعظم کی انتھک کوشش ان کے سیکرٹری خورشید حسن خورشید کی شبانہ روز محنت کے باعث دنیا کے اس نقشے پر اُبھرا۔ یعنی مملکت خداداد پاکستان27رمضان المبارک لیلتہ القدر کی رات کو قائم ہوا۔ قائد اعظم اس کے پہلے گورنر جنرل بنے اور پہلے وزیر اعظم نواب زادہ خان لیاقت علی خان بنے۔ان کی کابینہ میں عبداللہ ہارو، ابراہیم اسماعیل چندری گڑھ، سردار عبدتراب نشر، قاضی محمد عیسیٰ، راجہ غضنفر علی خان وغیرہ شامل تھے۔ آپ نے قیام پاکستان کے بعدپاکستان کے خدوخال کو نمایاں کرنے اور اس کے استحکام و ترقی اور اداروں کے قیام، مہاجرین کی بحالی کا بہت بڑا مسئلہ تھا۔ معیشت/کرنسی اداروں میں مناسب ملازمین کی تقرری الغرض انتہائی کٹھن کام تھا جو قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے دن رات ایک کرکے کام کیا۔حد سے زیادہ کام کرنے کی وجہ سے صحت خراب ہو گئی۔13جولائی کو آپ کی صحت بہت زیادہ خراب ہو گئی۔ ڈاکٹرز نے آرام کا مشورہ دیا لیکن کام کی زیادتی پھر بھی جاری تھی۔ڈاکٹر نے سختی سے آرام کا مشورہ دیا۔ چنانچہ 21جولائی بلوچستان کے صحت افزاء مقام زیارت لے جایا گیا۔ زیارت پہنچنے کے بعد بھی انہوں نے کسی مستند ڈاکٹر سے علاج کروانے پر توجہ نہ دی لیکن معلوم ہوا کہ اس زمانے میں مشہور ڈاکٹر ریاض علی شاہ اپنے ایک مریض کو دیکھنے کے لئے زیارت آئے ہوئے ہیں مشورہ دیا گیا کہ فائدہ اٹھا لیں لیکن قائد اعظم نے فرمایا مجھے کوئی سنگین مرض لاحق نہیں ہے صرف ان کا معدہ غذا ہضم کرنے لگے تو صحت بہتر ہوجائے گی۔ بقول محترمہ فاطمہ جناح جو ان کی بہن تھیں قائد اعظم ڈاکٹروں کے مشورہ سے گریز کرتے تھے۔کیا کروں؟ کیا کھائیں ؟ کتنا کھائیں، کب سوئیں۔، کتنی دیر آرام کریں، علاج سے گریز ان کی پرانی عادت تھی مگر جلد ہی اپنی عادت کو ترک کرنے پر مجبور ہو گئے۔ زیارت پہنچے پر ان کی طبیعت اتنی خراب ہو گئی کہ ان کی زندگی میں پہلی مرتبہ ان کی صحت ان کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی۔ خود ہی اندازہ ہو گیا کہ اب زیادہ صحت کے حوالے سے خطرات مول لینا مناسب نہیں۔ واقعی ان کو اچھے طبی مشورہ کی ضرورت ہے۔
فاطمہ جناح کا کہنا ہے کہ جونہی انہیں اپنے بھائی اس ارادے کا علم ہوا تو انہوں نے ان کے پرائیویٹ سیکرٹری فرخ امین کے ذریعے کابینہ کے سیکرٹری جنرل چوہدری محمد علی کو پیغام بھجوایا کہ وہ لاہور کے ممتاز فزیشن ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کو بذریعہ ہوائی جہاز زیارت بھجوانے کا انتظام کریں۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش 23جولائی کو بذریعہ ہوائی جہاز کوئٹہ بعد ازاں بذریعہ کار زیارت پہنچے۔ ان کا معدہ بالکل ٹھیک تھا لیکن پھیپھڑے اور سینے کی صورت حال بہتر/تسلی بخش نہیں تھی۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش کے مشورے پر کوئٹہ کے سول سرجن ڈاکٹر صدیقی اورکلینیل پتھالوجسٹ ڈاکٹر محمود ضروری آلات و سازوسامان لے کر زیارت پہنچے۔ انہوں نے فوری طور پر قائداعظم کے ٹیسٹ کیے جنہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش کے خدشات کی تصدیق کر دی کے وہ تپ دِق کے مرض میں مبتلا ہیں۔
چوہدری محمد حسین چٹھہ نے ایک انٹوویو میں ضمیر احمد منیر کو جب ڈاکٹر الٰہی بخش نے جناح کو بتایا کہ ان کو تپ دِق کا مرض لاحق ہے توجناح نے فرمایا مجھے تو 12برس سے معلوم ہے کہ مجھے تپ دِق کا مرض لاحق ہے۔صرف اس لئے نہیں بتایا کہ ہندو میری موت کا انتظار کرنے لگیں گے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش نے ڈاکٹر ریاض علی شاہ، ایس ایس عالم اور ڈاکٹر غلام محمد کو ٹیلی گرام کے ذریعے ضروری ساز و سامان کے ساتھ طلب کر لیا۔
30جولائی کو تمام معالجین زیارت پہنچ گئے۔ ایک دن پہلے کوئٹہ کی ایک تربتی یافتہ نرس ڈلیم کو بھی زیارت بلوایا جا چکا تھا۔ اب خداخدا کر کے جناح کے باقاعدگی سے علاج ہونے کے امکانات پیدا ہو چکے تھے لیکن قائد اعظم نے علاج کرواتے وقت معذرت کر لی لیکن زبردستی کراچی سے لائی گئی ادویات دی گئی۔31جولائی تا 12اگست طبیعت بہت بہتر ہو گئی تھی۔ ڈاکٹر کرنل الٰہی بخش نے لاہور واپس جانے کے لئے اجازت بھی لے لی تھی۔ ایک دن بعد ڈاکٹر الٰہی بخش، ڈاکٹر عالم کے ہمراہ الٹراوائلٹ آپریٹس لے کر زیارت پہنچے۔ ڈاکٹر ریاض نے بتایا کہ آپ کی عد م موجودگی میں قائد اعظم کی طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ بلڈ پریشر بھی گر گیا۔13اگست تا28اگست طبیعت سنبھلی، قائد اعظم کراچی کے لئے آمادہ ہو گئے۔30اگست کو قائد اعظم نے فاطمہ جناح کو کہا کہ اب مجھے زندہ رہنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ یہ بدشگونی کے الفاظ تھے۔ فاطمہ جناح افسردہ ہو گئیں جیسے بجلی کی ننگی تار کو چھو لیا ہو لیکن فاطمہ جناح نے کہا آپ بالکل ٹھیک ہو جائیں گے۔
یکم ستمبر1948ء میں ڈاکٹر الٰہی بخش نے بتایا کہ قائد اعظم کو برین ہیمرج ہو گیا ہے۔ نمونیہ کا حملہ بھی ہوا ہے۔دس ستمبر1948ؤ کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے بتایا کہ اب قائداعظم کے بچنے کی کوئی اُمید باقی نہیں ہے۔ بے ہوشی کا غلبہ ہوا۔11ستمبر دو گھنٹوں میں زیارت سے کوئٹہ پہنچے۔ 2گھنٹوں میں کوئٹہ سے کراچی، 2گھنٹوں میں رہائش گاہ تک پہنچے۔بار بار انجکشن لگائے جا رہے تھے۔ ڈاکٹر ریاض باربار نبض دیکھ رہے تھے۔ خدا خدا کر کے دو گھنٹے بعددوسری ایمبولینس آئی لیکن اس دوران قائد اعظم کی روح پرواز کر چکی تھی۔
اس طرح11ستمبر1948ء کو بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح پوری قوم کو داغ مفارقت دے گئے۔ کراچی میں دفن ہوئے اور بہت بڑی یادگار تعمیر کی گئی۔ اللہ تعالٰی ان کی قبر پر کروڑوں رحمتیں نازل فرمائے۔ آمین