بکھرتا سماج، ٹوٹتے رشتے
میں نانا بنا تو مجھے یوں لگا جیسے زندگی کی تکمیل ہو گئی ہو، بیٹیوں سے تو پیار ہوتا ہی ہے اُن کے بچوں سے اور بھی زیادہ پیار ہو جاتا ہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اپنے نواسوں حسنؓ اور حسینؓ سے کتنا پیار تھا۔ اِس کا تو کوئی احاطہ کیا ہی نہیں جا سکتا۔ میں نے اپنی زندگی میں کبھی نہیں سنا تھا کہ کسی نانا نے اپنے نواسوں اور نواسی کو جان سے مار دیا ہو۔ویسے بھی نانا کی عمر تک پہنچتے پہنچتے انسان کے قواع مضحل ہو جاتے ہیں اور اس میں نفرت اور غصے کے عناصر بھی نہ ہونے کے برابر رہ جاتے ہیں۔ ویسے بھی یہ رشتہ سراپا پیار ہوتا ہے اور نانا اپنے نواسوں نواسیوں پر جان چھڑکتا ہے، مگر ہائے اس دورِ ستم خیز میں یہ بھی دیکھنا پڑا کہ بستی ملوک ملتان میں ایک نانا نے اپنے دو نواسوں اور ایک چند دن کی نواسی کو قتل کر دیا۔ بس اس کی کسر رہ گئی تھی، وگرنہ باقی رشتوں کی بے توقیری تو روزانہ ہی دیکھنے کو ملتی تھی،ابھی ایک روز پہلے خبر آئی کہ ایک ظالم بیٹے نے اپنے باپ اور دو بہنوں کو قتل کر دیا۔غیرت کے نام پر بہنوں اور بیٹیوں کو قتل کرنے کے واقعات تو معمول بن چکے ہیں ایسے واقعات بھی ہوتے ہیں جب کوئی ہوس میں ڈوبی ہوئی ماں اپنے آشنا کے ساتھ مل کر اپنے بچوں کو قتل کر دیتی ہے،مگر صاحب پھر بھی ایک نانا اپنے نواسوں اور نواسی کا قاتل بن سکتا ہے، عقل ابھی تک اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔قصور صرف اتنا تھا کہ اُن کی ماں شوہر سے لڑ کر اپنے باپ کے گھر آ گئی تھی، بیٹیاں بابل کے گھر آ ہی جاتی ہیں اور یہ سوچ کر آتی ہیں کہ وہ ایک محفوظ گھر میں جا رہی ہیں،مگر یہاں معاملہ اُلٹ ہو گیا، محفوظ گھر مقتل بن گیا اور نانا نے معصوموں پر قیامت ڈھا دی۔ وہ جن کے وہم و گمان میں بھی نہ ہو گا کہ اُن کا نانا انہیں بے دردی سے قتل کر دے گا۔اس ظالم کی سفاکیت ملاحظہ فرمائیں کہ پولیس کی موجودگی میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے کہہ رہا تھا مجھے اِس کا کوئی پچھتاوا نہیں، وہ اِس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ ناراضی اگر بیٹی سے تھی تو غصہ اپنے نواسوں پر کیوں نکالا،ایسے واقعات دِل دہلا دیتے ہیں۔صبر و ضبط تو خیر قصہ ئ پارینہ بن ہی چکا اب ایسے رشتے بھی بے اعتبار ہوتے جا رہے ہیں، جن پر معاشرے کی بنیادیں کھڑی ہوتی ہیں۔اب کوئی یہ نہ کہے کہ سب سوشل میڈیا کا بگاڑ ہے۔ نواسوں اور نواسی کو مارنے والے بابے نے تو شاید زندگی بھر موبائل فون بھی نہ لیا ہو۔اُس کی حالت بتا رہی ہے کہ وہ ایک غریب اور اَن پڑھ آدمی ہے،کسی ترقی یافتہ ملک میں یہ سانحہ ہوتا تو پولیس بس ملزم کو گرفتار کر کے بیٹھ نہ جاتی۔ ماہرین نفسیات،سوشیالوجی کے ماہرہ، سماجی سائنس سے تعلق رکھنے والے افراد اور ادارے اس کیس کے پیچھے لگ جاتے، اُن حالات اور باتوں کا تعین کرتے جو ایک بوڑھے شخص کو اپنے ہی بچے مارنے پر اُکسانے کا باعث بنیں۔
یہ حقیقت تو سب تسلیم کر رہے ہیں کہ معاشرے میں عدم برداشت بڑھ رہی ہے۔چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل ہو رہے ہیں۔ ہر کوئی اپنے اندر ایک بدمعاش پال چکا ہے،جو بات بے بات باہر آ کر وہ کر جاتا ہے،جس کا وہم و گمان بھی نہیں ہوتا تاہم سب سے تشویشناک بات یہ ہے کہ خونی رشتوں کی محبت بھی نفرت میں بدل رہی ہے۔ناہنجار بیٹے اپنی ماؤں،بہنوں کو قتل کر رہے ہیں آج سے دس بیس سال پہلے ایسی واردات ہو تو کہا جاتا تھا یہ قربِ قیامت کی نشانیاں ہیں،مگر آج یہ واقعات آئے روز ہوتے ہیں اور معاشرہ بھی ان کاعادی ہوتا جا رہا ہے۔اصل قربِ قیامت کی نشانی یہ ہے،میں نے کچھ مہینے پہلے ایک کالم لکھا تھا،جس کا عنوان ”گھروں کو پریشر ککر نہ بنائیں“ تھا۔یہ آخر کس باد سموم کا نتیجہ ہے کہ گھر بے امان ہو گئے ہیں، رشتوں کا تقدس ہی نہیں،روایات بھی پامال ہو رہی ہیں ایک باپ کے لئے یہ صدمے کی بات ضرور ہوتی ہے کہ بیٹی اپنے شوہر کا گھر چھوڑ کر باپ کے گھر آ جائے،لیکن اُس کی سوچ کا زوایہ کبھی وہ نہیں ہوتا جو اس نانا نواسوں کے کیس میں نظر آیا ہے۔یہ اِس بات کا بھی اظہار ہے کہ آج کا انسان تنہا ہوتا جا رہا ہے۔وہ کسی مشکل یا مصیبت کے وقت کسی سے مشورہ کرنے کی سہولت سے بھی محروم ہے،کہ کسی کے پاس بھی اُس کا دُکھ یا مسئلہ سننے کی فرصت نہیں۔ ہم ایک دوسرے سے کتنے دور اور لاتعلق ہو چکے ہیں اس کی مثال اُس وقت بھی سامنے آئی تھی جب کراچی کے ایک فلیٹ میں ٹی وی اینکر کی لاش چھ ماہ پڑی رہی اور کسی نے خبر تک نہ لی۔حالیہ دِنوں میں نوجوانوں کی خود کشی کے کئی واقعات سامنے آئے۔اُن میں ایک بات مشترک تھی کہ وہ اندر سے تنہا ہو چکے تھے اور جن مسائل میں گھرے ہوئے تھے انہیں سننے والا کوئی نہیں تھا۔
میرے لندن میں مقیم ایک دوست فیض محمد بتاتے ہیں کہ میں ایسے فلیٹ میں رہتا ہوں جن کی نچلی منزل پر فلیٹ کی مالک خاتون رہتی ہیں اُن کے بچے لندن کے دوسرے حصے میں رہتے ہیں، لیکن روزانہ اپنی ماں کو ملتے آتے ہیں۔انہوں نے بتایا دو ہفتے پہلے میری طبیعت خرائی ہو گئی، الٹیاں آنے لگیں اور میری آواز نچلی منزل پر مقیم خاتون تک پہنچ گئی۔ وہ اوپر آئیں، میرے کمرے کا دروازہ بجایا،میں باہر نکلا تو تشویشناک نگاہوں سے دیکھتے ہوئے پوچھا کیا تم ٹھیک ہوٖ! ہسپتال جانا ہے تو ایمبولینس منگواؤں، کسی چیز کی ضرورت ہے تو میں لا دیتی ہوں، میں نے شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا،نہیں اب میں بہتر محسوس کر رہا ہوں۔ وہ کچھ دیر میرے پاس رہیں اور پھر یہ کہہ کر چلی گئیں اپنا بہت خیال رکھنا، مجھے آواز دینے میں بالکل نہ جھجھکنا۔وہ بتاتے ہیں میں جب صبح اُٹھا اور اپنی بالکونی سے باہر دیکھا تو وہ سیڑھیوں کے ساتھ بیٹھی سو رہی تھیں۔ یہ بات میرے لئے حیران کن تھی، میں فوراً نیچے گیا اور انہیں جگایا، میں نے پوچھا خیر تو ہے آپ یہاں سو رہی ہیں،انہوں نے جو جواب دیا میری آنکھیں نمی سے تر ہو گئیں۔وہ کہہ رہی تھیں تمہاری طبیعت خراب تھی،میں نے سوچا کہ اندر جا کر سو گئی تو شاید تمہیں ضرورت پڑے اور مجھے علم نہ ہو اِس لئے یہیں بیٹھ گئی،میں تمہاری ماں جیسی ہوں ناں۔جب معاشرے اس طرح جڑے رہیں تو اُن کے دُکھ بھی کم ہو جاتے ہیں، مگر ہم تو بکھرا ہوا سماج بن گئے ہیں،آج یوم آزادی پر ہمیں اس حوالے سے بھی سوچنا چاہئے۔