کالم سیکشن

نویں جماعت کے نتائج: ناکامی یا منصوبہ بندی؟

تحریر: یاسر فہمید

پنجاب میں حالیہ نویں جماعت کے نتائج نے طلبہ، والدین اور اساتذہ سب کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ غیر معمولی حد تک کم کامیابی کی شرح نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ کیا یہ ناکامی محض طلبہ کی محنت کی کمی ہے , اساتذہ کی نا اہلی یا پھر یہ سب ایک منصوبہ بندی کے تحت ہوا ہے؟

تعلیمی ماہرین کا کہنا ہے کہ پچھلے کچھ برسوں میں پنجاب کا تعلیمی نظام تجربہ گاہ بنا ہوا ہے۔ کبھی سمارٹ سلیبس، کبھی آن لائن پیپرز، کبھی امتحانی طریقہ کار میں اچانک تبدیلی—یہ سب ایسے اقدامات ہیں جن کا بوجھ براہِ راست طلبہ پر ڈالا گیا۔ اساتذہ کو تربیت دیے بغیر نئی پالیسیاں نافذ کی گئیں، شہروں اور دیہات کے تعلیمی معیار میں پہلے ہی واضح فرق موجود تھا، اور اب نتائج نے یہ فرق مزید نمایاں کر دیا ہے۔

گزشتہ دس برسوں پر نظر ڈالیں تو پنجاب کی تعلیمی پالیسیوں میں تسلسل کے بجائے بار بار کے تجربات نظر آتے ہیں۔ کبھی “ایجوکیشن ریسکیو پالیسی” کے نام پر بڑے دعوے کیے گئے، کبھی سمارٹ سلیبس اور ڈیجیٹل لائبریری کے منصوبے متعارف ہوئے، کبھی رٹا ختم کرنے کے نعرے لگے مگر عملی اقدامات صفر رہے۔ دوسری طرف بجٹ کا حال یہ ہے کہ تعلیم کے لیے مختص رقم کا بڑا حصہ تنخواہوں اور انتظامی اخراجات میں کھپ جاتا ہے، جبکہ اسکولوں میں بنیادی سہولیات—پینے کا صاف پانی، واش رومز اور فرنیچر—ابھی تک ایک خواب ہیں۔ حیرت انگیز طور پر تعلیمی بجٹ میں ہر سال اضافے کے دعوے کیے گئے مگر عملی طور پر تعلیمی معیار مسلسل زوال کا شکار ہے۔
کسی ریاست کے حکمرانوں کی کسی بھی شعبے میں دلچسپی و سنجیدگی اکا اندازہ اس کی پالیسیوں اور بجٹ کے تناسب سے لگایا جاتا ہے جبکہ پاکستان میں تعلیم اور صحت کو جتنا سنجیدہ لیا جاتا ہے اس کا اندازہ تقریباً ہر پاکستانی کو ہے
اعداد و شمار پر نظر ڈالیں تو تصویر اور بھی واضح ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں تعلیمی بجٹ مجموعی صوبائی بجٹ کا اوسطاً 18 سے 20 فیصد بتایا جاتا ہے، مگر اس کا تقریباً 80 فیصد حصہ صرف تنخواہوں اور انتظامی اخراجات میں ختم ہو جاتا ہے۔ ترقیاتی منصوبوں اور اسکولوں کی سہولیات پر نہ ہونے کے برابر خرچ کیا جاتا ہے۔ حالیہ نویں جماعت کے نتائج میں کامیابی کی شرح صرف 40 سے 45 فیصد رہی، جو پچھلے کئی برسوں کی کم ترین سطح ہے۔ دوسری طرف عالمی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان میں آج بھی بچوں کی تقریباً 23 فیصد آبادی اسکولوں سے باہر ہے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسئلہ طلبہ کی محنت یا صلاحیت کا نہیں بلکہ پالیسیوں کی ناکامی اور حکومتی بے حسی کا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ایسے کمزور نتائج کے بعد ایک نئی بحث زور پکڑ رہی ہے: سرکاری اسکولز کی “کارکردگی” اتنی خراب ہے کہ اب ان کا واحد حل آؤٹ سورسنگ ہے۔ گویا یہ نتائج ایک جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کیے جا رہے ہیں۔ اگر اسکول نجی این جی اوز یا اداروں کے حوالے کر دیے گئے تو بظاہر تو “بہتری” دکھائی جائے گی لیکن اس کا اصل مطلب ہوگا تعلیم کا کاروبار۔ اساتذہ کی نوکریاں غیر محفوظ ہو جائیں گی، والدین پر مزید مالی بوجھ پڑے گا اور تعلیم عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جائے گی۔

یہ طرزِ حکمرانی نہ صرف طلبہ کے مستقبل سے کھیل ہے بلکہ معاشرے کو مزید طبقاتی تقسیم کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہے۔ تعلیم ایک بنیادی حق ہے، اسے منافع بخش منصوبہ نہیں بنایا جا سکتا۔ اگر حکومت واقعی اصلاح چاہتی ہے تو سب سے پہلے سرکاری اسکولز میں سہولیات بہتر کرے، اساتذہ کی تربیت پر توجہ دے ، ایک جیسا اور جدید دنیا سے ہم آہنگ نصاب رائج کرے اور امتحانی نظام کو شفاف بنائے۔

بچوں کے مستقبل کو داؤ پر لگانے کے بجائے تعلیم کو مضبوط بنانا وقت کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔ وگرنہ یہ نتائج صرف آج کی خبر نہیں رہیں گے بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے اندھیرا ثابت ہوں گے۔

تعلیم کو تجارت مت بنائیں، یہ قوم کی بقا کا واحد سہارا ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *