ضلع میرپور کی خبریںکالم سیکشن

خدمت کی ایک لازوال داستان — سید رجب حسین شاہ

خدمت کی ایک لازوال داستان — سید رجب حسین شاہ

تحریر: قاضی محمد عابد

ضلع میرپور کے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر اینڈ ٹیچنگ ہسپتال کی فضا آج کسی حد تک سوگوار سی ہے۔ چالیس سال تک خدمات سرانجام دینے کے بعد ایک ایسی شخصیت ریٹائر ہو گئی ہے جس نے اس ادارے کو محض اپنی ملازمت کا مقام نہیں سمجھا بلکہ اسے خدمتِ خلق کا مرکز بنایا۔ یہ شخصیت ہیں سید رجب حسین شاہ، جو پی اے ٹو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے چار دہائیوں تک اپنی ذمہ داریاں انجام دینے کے بعد باعزت طور پر ریٹائرڈ ہوئے۔

یہ سفر 1986 میں شروع ہوا جب وہ سکیل 5 میں بھرتی ہوئے۔ ایک عام سے عہدے پر آنے والے اس شخص نے اپنی محنت، خلوص اور فرض شناسی کے بل پر وہ مقام حاصل کیا جس کا خواب بہت کم لوگ دیکھتے ہیں۔ وہ رفتہ رفتہ ترقی کی منازل طے کرتے ہوئے 2025 میں گزیٹڈ ون آفیسر کے طور پر ریٹائر ہوئے۔ یہ چالیس سالہ سفر محض ایک نوکری نہیں تھا بلکہ جدوجہد، استقامت اور عوامی خدمت کی روشن مثال ہے۔

سید رجب حسین شاہ کے حصے میں آسانیاں کم اور آزمائشیں زیادہ آئیں۔ ہسپتال میں ایم ایس کی بار بار کی سیاسی بنیادوں پر تعیناتیاں، انتظامی دباؤ، اختلافات اور سازشیں—سب کچھ انہوں نے قریب سے دیکھا۔ لیکن یہ ان کا ظرف اور حوصلہ تھا کہ وہ ہر رویہ برداشت کرتے رہے مگر عوامی خدمت پر سمجھوتہ نہیں کیا۔ وہ اکثر کہا کرتے تھے: “یہ کرسی نرم نہیں بلکہ کانٹوں کی سیج ہے، اور جو اس پر بیٹھتا ہے اُسے خدمت کو عبادت سمجھنا چاہیے۔”

ہزاروں مثالیں ہیں جب کسی مریض کو سہولت میسر نہ تھی تو سید رجب حسین شاہ نے اپنی بساط سے بڑھ کر مدد فراہم کی۔ کبھی ادویات کا بندوبست کیا، کبھی ایمبولینس کا انتظام کیا اور کبھی کاغذی رکاوٹیں ذاتی کوشش سے دور کیں۔ یہی خلوص ان کی اصل پہچان بنا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ آج پورا میرپور شہر انہیں خراج تحسین پیش کر رہا ہے۔

ان کی شخصیت کا ایک اور نمایاں پہلو ان کا رویہ تھا۔ جونیئر سے جونیئر اسٹاف کو بھی عزت دینا ان کی عادت تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جب ان کی ریٹائرمنٹ کا وقت آیا تو ہسپتال کا ہر ملازم، نچلے درجے سے لے کر اعلیٰ افسران تک، اشکبار نظر آیا۔ یہ آنسو کسی منصب یا کرسی کے لیے نہیں بلکہ ایک انسان کی محبت اور خدمت کے اعتراف میں بہے۔

سید رجب حسین شاہ کی زندگی ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ سرکاری نوکری کو اگر صرف ایک ذریعہ معاش سمجھا جائے تو شاید یہ محض ایک روزگار ہے، لیکن اگر اسے خدمتِ خلق کا ذریعہ بنایا جائے تو یہی نوکری انسان کو عزت بھی دیتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں گھر بھی۔ وہ ایک ایسی مثال ہیں جو آنے والی نسلوں کو یہ باور کراتی رہے گی کہ دیانت، محنت اور خدمت جیسے اوصاف کبھی زنگ آلود نہیں ہوتے۔

آج جب وہ اپنی عملی زندگی سے سبکدوش ہو گئے ہیں تو یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ انہوں نے اپنے پیچھے خدمت اور عزت کا وہ چراغ جلا دیا ہے جو آنے والے برسوں تک روشن رہے گا۔

جیسا کہ شاعر نے کہا ہے:

کر کے دلوں کو فتح، وہ منزل ملی انہیں
جس پر رہا ہے ناز زمانے کو برملا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *