برمنگھم، سالانہ تاجدار ختم نبوت کانفرنس کا انعقاد، سینکڑوں شرکاء کی شرکت۔
برمنگھم (نامہ نگار خصوصی)
برمنگھم کے ایچ آر اے بینکوئٹنگ ہال میں سالانہ تاجدار ختمِ نبوت کانفرنس نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منعقد ہوئی، جس میں ملک بھر سے سینکڑوں شرکاء نے شرکت کی۔ اس موقع پر ہال “تاجدار ختمِ نبوت زندہ باد” کے فلک شگاف نعروں سے گونج اٹھا۔
تقریب میں علامہ سید غلام دستگیر گیلانی، علامہ سید شمس العارفین، امام عادل شہزاد، علامہ فاروق نظامی، مفتی محمد طاہر علی، مولانا الیاس یونس اور مولانا راشد رضوی نے شرکت کی۔ مقررین نے ختمِ نبوت کے عقیدے کی اہمیت اور اس کے تحفظ کے تقاضوں پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
علمائے کرام نے کہا کہ ختمِ نبوت ایمان کا بنیادی حصہ ہے اور اس پر کامل یقین رکھے بغیر ایمان مکمل نہیں ہوسکتا۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے رسول اکرم ﷺ کو “خاتم النبیین” قرار دیا ہے اور احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ فرمایا گیا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ یہی وجہ ہے کہ اس عقیدے پر اجماعِ امت ہے اور اس میں کسی قسم کا شک یا انحراف کفر کے مترادف ہے۔
مقررین نے کہا کہ ختمِ نبوت کا عقیدہ صرف ایک مذہبی مسئلہ نہیں بلکہ امتِ مسلمہ کی وحدت اور بقا کی ضمانت ہے۔ اسی عقیدے نے چودہ صدیوں سے امت کو متحد رکھا اور ہر فتنے کے مقابلے میں مسلمانوں کو مضبوط بنایا۔ انہوں نے کہا کہ انبیاء کرامؑ کی بعثت کا مقصد انسانیت کو ہدایت دینا تھا اور چونکہ حضور ﷺ کو آخری نبی بنا کر بھیجا گیا، اس لیے آپ ﷺ کی شریعت تا قیامت قائم رہے گی۔
علمائے کرام نے 7 ستمبر 1974 کے تاریخی فیصلے کا بھی ذکر کیا، جب پاکستان کی قومی اسمبلی نے دوسری آئینی ترمیم کے ذریعے قادیانیوں اور ان کے سربراہ مرزا غلام احمد قادیانی کو غیر مسلم قرار دیا۔ مقررین نے کہا کہ یہ فیصلہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی عقیدے کا عملی اظہار تھا اور آج بھی مسلمانوں کے دلوں میں اس فیصلے کی عظمت زندہ ہے۔
شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے علمائے کرام نے کہا کہ تحفظِ ختمِ نبوت صرف ایک عقیدہ ہی نہیں بلکہ ہر مسلمان کا دینی فریضہ ہے۔ انہوں نے عوام کو تلقین کی کہ وہ اپنی نئی نسل کو اس عقیدے سے روشناس کروائیں اور فکری و نظریاتی حملوں کے مقابلے میں بیدار رہیں۔
یہ گزشتہ ایک سال کے دوران تحفظ ختمِ نبوت موومنٹ کے زیرِ اہتمام منعقد ہونے والی چوتھی کانفرنس تھی۔ مقررین نے برمنگھم کے منتظمین کو خراجِ تحسین پیش کیا اور دعا کی کہ اللہ تعالیٰ ان کی کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے اور انہیں اجرِ عظیم عطا کرے۔