آدھا سچ منافقت کا اعلٰی درجہ
آدھا سچ منافقت کا اعلٰی درجہ
تحریر: قاضی محمد عابد
آدھا سچ بعض اوقات پورے جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ثابت ہوتا ہے۔ جھوٹ کو تو لوگ جھوٹ سمجھ لیتے ہیں، مگر آدھے سچ میں دھوکہ پوشیدہ ہوتا ہے، اس لیے لوگ حقیقت کو پہچان نہیں پاتے۔ آدھا سچ بظاہر سچائی کا روپ دھارے ہوتا ہے مگر حقیقت میں وہ سچ کے نام پر جھوٹ کی چادر اوڑھ کر سامنے آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ لوگوں کو زیادہ گمراہ کرتا اور اعتماد کو سب سے زیادہ مجروح کرتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو بڑے فخر سے یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں۔ مگر ان کا سچ صرف دوسروں کے بارے میں ہوتا ہے۔ دوسروں کی کمزوریاں اور غلطیاں بیان کرنا ان کے نزدیک دیانت داری ہے، لیکن جب اپنی ذات کی باری آتی ہے تو زبان کچھ اور کہتی ہے اور کردار کچھ اور۔ ان کا دعویٰ کچھ اور ہوتا ہے اور عمل اس کے برعکس۔ یہی وہ منافقت ہے جس نے معاشرے کو کھوکھلا کر دیا ہے۔
اصل سچ وہ ہے جو انسان سب سے پہلے اپنے بارے میں بولے۔ اپنی غلطی کو تسلیم کرنا، اپنی کوتاہی کا اعتراف کرنا اور اپنے کردار کو اپنی گفتار کے مطابق ڈھال لینا ہی دراصل سچائی کی بنیاد ہے۔ اگر سچ صرف دوسروں کے لیے ہو اور اپنے لیے پردہ پوشی، تو یہ نہ صرف جھوٹ بلکہ بدترین منافقت ہے۔
منافق آدمی وقتی طور پر لوگوں کو دھوکہ دے سکتا ہے، مگر زیادہ دیر تک اپنی حقیقت چھپا نہیں سکتا۔ انسانوں کو شاید وہ دھوکہ دے لے، لیکن اللہ کو دھوکہ دینا ممکن نہیں۔ قرآن کریم میں منافقین کے بارے میں فرمایا گیا ہے: “بیشک منافق لوگ اللہ کو دھوکہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ خود اپنے آپ کو دھوکہ دے رہے ہیں اور انہیں شعور نہیں” (النساء: 142)۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زبان اور اپنے کردار کو ایک کریں۔ اگر ہم واقعی سچ بولنے والے ہیں تو سب سے پہلے اپنے بارے میں سچ بولیں، اپنی کمزوریوں کو مانیں اور اپنے عمل سے وہی ثابت کریں جو زبان سے کہتے ہیں۔ یہی رویہ ہمیں منافقت سے بچا سکتا ہے اور یہی وہ راستہ ہے جو عزت اور وقار تک لے جاتا ہے۔