لاش کو کافور نہیں، تدفین کی ضرورت ہے!

حرفِ بغاوت – بیرسٹر عمار خوشنود
ہم نے اپنے نظامِ حکومت اور موجودہ سسٹم کو خوبصورت اور دلفریب الفاظ کا لبادہ اوڑھا رکھا ہے: جمہور، عوام، پارلیمنٹ، آئین، عدل، انصاف، قانون، اسٹیبلشمنٹ، بیوروکریسی۔۔۔ اور جانے کیا کچھ! لیکن 78 سال کی قومی عمر کے بعد اگر ان الفاظ کے “ثمرات” کا جائزہ لیا جائے تو حقیقت کسی اندوہناک مذاق سے کم نہیں۔
آج کے پاکستان میں ایک محتاط اندازے کے مطابق 45 فیصد افراد غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ میری ذاتی رائے میں یہ شرح 50 فیصد سے بھی تجاوز کر چکی ہے۔ صاف الفاظ میں کہا جائے تو نصف سے زائد پاکستانیوں کے لیے جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا بھی مشکل ہے۔ ان کے لیے اب معاملہ وقار، عزت نفس، جمہوریت یا قانون کا نہیں، بلکہ محض زندہ رہنے کی جبلّت کا ہے۔
آپ خود سوچیے: اگر ایک شخص یا اس کے بچے بھوکے ہوں، تو کیا وہ نظام اور آپ کی شکلوں کو دیکھیں گے؟
اصل مسئلہ یہی ہے۔ اور ہر ذی شعور انسان کے لیے یہ ایک معاملہ ہی پورے نظام کا خلاصہ ہے۔ جس کو یہ شعور نہیں، اس کے گھر کے در و دیوار اور دروازے تو ہیں ہی!
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جن کے ذمے تھا کہ وہ اس نظام کو سنواریں، انہوں نے کیا کیا؟ یہ طبقہ چند ہزار افراد اور چند سو خاندانوں پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں اسی طبقے کی ایک “کمیٹی” نے انکشاف کیا کہ ملک کے چند درجن بااثر افراد نے چینی ایکسپورٹ کر کے راتوں رات 300 ارب روپے کمائے۔
میری رائے میں یہی وہ طبقہ ہے جس کو اسٹیبلشمنٹ نے اپنے اور عوام کے درمیان ایک بفر کے طور پر رکھا ہے۔ جس نے اپنے آگے “پارلیمان، جمہور، قانون، آئین” کو شاید اپنے اور عوام کے بیچ ایک اور بفر، ایک دھوکے، یا حفاظتی پردے کے طور پر کھڑا کر رکھا ہے۔
اس وقت کوئی بڑی سیاسی جماعت یا شخصیت ایسی نہیں جس کا خمیر اسٹیبلشمنٹ کی نرسری میں نہ اُگا ہو۔ اور شاید اسٹیبلشمنٹ کا سب سے ناکام تجربہ “پی ٹی آئی” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ جس کا آغاز تبدیلی کے نعرے سے ہوا، لیکن انجام ہر اس جماعت جیسا ہوا جو اسی طاقت کے ہاتھوں تخلیق پاتی ہے۔
مگر پی ٹی آئی کے تجربے نے ایک حقیقت کو واضح کر دیا: اسٹیبلشمنٹ کے اندر اقتدار کی کشمکش اور آپسی تضادات نے یہ ثابت کر دیا کہ کوئی “فیل سیف میکینزم” موجود نہیں۔ جنرل باجوہ اور جنرل فیض حمید جیسے کردار اس کی دو مثالیں ہیں۔
عوام آج بھی بھوکی ہے، لیکن ماضی کے مقابلے میں شاید زیادہ باشعور ہے، بشکریہ اسٹیبلشمنٹ کے پی ٹی آئی تجربہ۔ جیسے مصطفیٰ نواز کھوکھر نے کہا: “بعض معاملات میں عوام اسٹیبلشمنٹ سے آگے نکل چکی ہے۔” ہو سکتا ہے میں غلط لکھ رہا ہوں، لیکن میری رائے میں وہ یہ بات اپنے پلے سے نہیں کہہ رہے۔ “میں نے مصطفیٰ کا نام اس لیے لیا کیونکہ وہ اُمید سے ہیں۔۔۔” If sense prevails in the coming couple of weeks…کئی لوگوں کی کئی سالوں کی محنت۔۔۔down the Drain۔۔۔ہو سکتی ہے! کیونکہ کبھی تو facade کام آ جاتا ہے لیکن ہمیشہ facade سے کام نہیں چلتا اور مجھے یوں محسوس ہوتا ہے جیسے یہ facade کا وقت نہیں ہے۔ میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ یہ سب میرا گمان ہے۔
تاریخ گواہ ہے کہ کبھی کوئی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر وجود میں نہیں آئی، اور نہ ہی کوئی انتخابی نتیجہ ان کی منشاء کے خلاف رہا۔ لیکن حالیہ برسوں میں جو حکومتیں انہوں نے اپنے زور بازو سے بنائیں، ان کی عوامی مقبولیت کا حال جاننا ہو تو کسی گلی، بازار یا محلے میں جا کر پوچھیے، تبصرے کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
اس کے باوجود اگر آپ آج کے حکمرانوں سے بات کریں گے تو وہ اربوں روپے کے “صدی کے منصوبوں” کا ذکر کریں گے۔ لیکن سچ یہ ہے کہ ملک دیوالیہ پن کے دہانے پر کھڑا ہے، صوبائی حکومتوں کے منصوبے کئی سو اربوں کے ہیں، صوبائی چیف منسٹر ،سیکرٹریوں اور وزراء کے سامنے وفاقی حکومت وزراء اور سیکرٹریوں کی حیثیت نہ ہونے کے برابر ہے اور تقریباً ملک کی آدھی آبادی بھوک ننگ کے عالم میں ہے۔
ایسے میں سوال یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کے پاس کیا راستہ بچا ہے؟ کیا وہ اسی طرح نظام کو گھسیٹتے رہیں گے؟ یا پھر کوئی نیا تجربہ کرنے جا رہے ہیں؟
میرا اندازہ ہے کہ وہ ایک نئے تجربے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اس تجربے میں بھی وہ اسی پرانے طبقے کو استعمال کریں گے، جسے وہ ہمیشہ سے عوام اور اپنے درمیان ایک بفر کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔
یہ طبقہ چار بڑی اقسام پر مشتمل ہے:
- وہ جو واقعی دانشور اور صاحبِ بصیرت ہیں، لیکن ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے؛
- وہ جو اصل میں کاروباری ہیں اور سیاست کو کاروبار کے تحفظ کا ذریعہ سمجھتے ہیں؛
- وہ جو محض اثر و رسوخ یا خاندانی نام بچانے کے لیے سیاست کرتے ہیں؛
- اور وہ جو صرف “شامل باجا” کے طور پر منظر پر موجود ہیں۔
ان سب میں ایک بات مشترک ہے: ان کی سیاست گلیوں، نالیوں، کھمبوں، سڑکوں، تھانوں اور ٹرانسفارمروں کے گرد گھومتی ہے۔ اگر کاروبار کرتے ہیں تو وہی اولین ترجیح بن جاتا ہے۔ اور اگر نہیں بھی کرتے تو سیاست میں آنے کے کچھ عرصے بعد کوئی نہ کوئی کاروبار ضرور ہوتا ہے۔ حضور ! میرے مطابق، آپ کے اپنے اندازے میں، لوگ کئی معاملات میں آپ سے آگے نکل چکے ہیں!
میرا خیال ہے کہ یہ نظام اب ایک لاش بن چکا ہے۔ اور یہ لاش گل سڑ چکی ہے، بدبو اور تعفن پھیلا رہی ہے۔ اسے کافور لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہونے والا۔ وقت آ گیا ہے کہ اس کی تدفین کی جائے۔
دنیا کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جہاں قوموں نے بربادی کے کنارے سے پلٹ کر نئی شروعات کی۔ جرمنی اور جاپان نے جنگِ عظیم دوم کے بعد ملبے سے جنم لیا۔ ہمیں بھی خود کو دھوکہ دینا چھوڑ کر فیصلہ کرنا ہو گا، یا ہم اس تعفن زدہ لاش کو بار بار جِلا دینے کی کوشش کرتے رہیں گے؟ آپ اس لاش کے ٹکڑے جہاں کہیں بھی فٹ کریں گے بدبو اور تعفن ساتھ آئیں گے!
حضور والا! فیصلہ آپکے کے ہاتھ میں ہے، آپ صومالیہ ،سوڈان وینزویلا رہنا چاہتے ہیں یا ایک ترقی یافتہ ملک و قوم بننے کی خواہش ہے!
شاکر شجاع آبادی کے الفاظ اور جسمانی حالت میں کہوں تو۔۔۔
اساں اجڑے لوک مقدراں دے
ویران نصیب دا حال نہ پچھ
توں شاکر آپ سیانا ایں
ساڈا چہرہ پڑھ حالات نہ پچھ
بہرحال سیکیورٹی ابھی بھی tight ہے!